Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 8

"آپ۔۔۔۔۔"جونیجو کال بند کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا کہ دروازے پر دستک کی آواز سُن کر دروازہ کھولا اپنے سامنے امتل بلوچ کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اُسکا اس وقت یہاں آنا وہ ایکسپکٹ نہیں کر رہا تھا۔ "ہاں وہ آپکا حال پوچھنے آئی ہوں،اب کیسی طبیعیت ہے آپکی۔۔۔۔۔۔؟وہ مُسکرا کر بولی جونیجو لب بھینچ گیا۔ "میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔"سپاٹ انداز تھا۔ "اندر آنے کو نہیں کہیں گئے کیا۔۔۔۔۔۔۔" "جی آئیے۔۔۔۔۔۔"وہ دروازے سے پیچھے ہٹ گیا تو وہ اندر آ گئی۔ "تو یہ گھر ہے آپکا۔۔۔۔۔۔۔"وہ پانچ مرلہ گھر کا جائزہ لینے لگی وہ خاموش ہی رہا۔ "آپکے والدین تو سو چُکے ہونگے۔۔۔۔۔" "جی میرے خیال میں یہ وقت سونے کا ہی ہوتا ہے نہ کہ کسی کا عیادت کرنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے رات کے گیارہ بجے آنے پر اپنی ناگورای چُھپا نہ سکا۔ "لگتا ہے آپکو اچھا نہیں لگا میرا یہاں آنا۔۔۔۔۔"وہ خفیف سی ہو کر بولی۔ "بے وقت آنا مُجھے کسی کا بھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔"وہی مخصوص لب و لہجہ تھا۔ "آئی نو زیادہ ٹائم ہو گیا پر مُجھے نیند نہیں آ رہی تھی مُجھے آپکی بہت فکر ہو رہی تھی،اور دوسری بات کہ بابا سائیں اور دونوں بھائی کراچی چلے گئے ہیں اس لئے میں چلی آئی ورنہ اُن کی موجودگی میں،میں کیسے آ سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سچ بیان کر گئی جو جونیجو پہلے سے ہی جانتا تھا۔ "آپکو اُنکی غیر موجودگی میں بھی نہیں آنا چاہیئے تھا،آپ کے اور میرے درمیان ایسا کوئی رشتہ نہیں جو ہمیں رات کے اس پہر اور یوں ملنے کی اجازت دے۔۔۔۔۔۔۔۔" "رشتہ بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔"وہ معنی خیزی سے بولتی اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی جو اُسکی بات کا مطلب سمجھ کر سختی سے خُود کو کُچھ بُرا کہنے سے روک گیا۔ "اب آپکو چلے جانا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو اسکی طرف سے رُخ موڑ گیا جس سے امتل بلوچ اُسکا گریز اور بیزاری بھانپتے ہوئے کڑھ کر رہ گئ وہ رات کے اس پہر اتنا بڑا قدم اُٹھا کر صرف اس کے لئے آئی تھی تا کہ اس کے ساتھ اپنی چاہت کا اقرار کر سکے مگر وہ تھا کہ ایک نگاہ بھی اس کے ہوشربا وجود پر ڈالنے کا روادار بھی نہ تھا۔ "بندے کو اتنا بھی خُشک مزاج نہیں ہونا چاہیئے کہ اتنی حیسن اور پُرلُطف رات کے ان لمحات سے مُنہ موڑ لے۔۔۔۔۔۔۔"وہ گھوم کر اُس کے سامنے آ کھڑی ہوئی جونیجو نے دیکھا جو شب خوابی کے لباس میں ملبوس نہ صرف دیکھنے میں بے باک لگ رہی تھی بلکہ اپنی گُفتگو میں بھی وہی اثر رکھتی تھی۔ "میرے جیسے بندے سے جتنا ہو سکیں دُور رہیں اس میں آپکی ہی بھلائی ہے،اب آپ جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔"اب کی بار اُسکا لہجہ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔امتل بلوچ کا چہرہ فق ہوا وہ اس کے سپاٹ چہرے پر ایک نگاہ ڈالتی چلی گئی جونیجو نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے کی طرف گیا۔

"___________________________________"

پرخہ شاہ پیلس میں آ کر بہت خُوش تھی اور صندل بُوا اُسے خُوش دیکھ کر پُرسکون ہو گئیں تھیں ورنہ تو نور حویلی میں اُنکو دھڑکا ہی لگا رہتا تھا کہ بلوچ کچھ غلط نہ کر دے اسکے ساتھ اتنا تو بُوا کو اندازہ تھا کہ وہ کمینگی کی ہر حد سے گُزر چُکا تھا. "کیا سوچ رہی ہے میری بیٹی۔۔۔۔۔۔۔"صندل بُوا اس کے قریب آئیں جو لان میں جُھولے پر بیٹھی تالاب میں تیرتیں بطخوں کو دیکھتی نہ جانے کن سوچوں میں مُبتلا تھی۔ "بُوا یہ زندگی کتنی خُوبصورت ہے نہ،بلکل آزاد ہر فکر سے ہر روک ٹوک سے،اور ایک نُور حویلی کی بھیانک زندگی جہاں ہر خواہش کو دفن کر کے زندہ رہنا پڑتا تھا۔۔۔۔۔۔" "اب کیوں سوچتی ہو وہ سب جو بیت چُکا،اب تو ایک نئی زندگی ملی ہے تُمہیں اسے جی بھر کر جیو بیتے ہوئے کل کی ہر تکلیف بُھلا کر۔۔۔۔۔"صندل بُوا نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا وہ مُسکرا کر سر ہلا گئی۔ "یہ مریام بیٹا کب آئے گا،دو دن ہو گئے ابھی تک نہیں آیا وہ۔۔۔۔۔۔۔"صندل بُوا کے سوال پر اُسکے لبوں پر ایک خُوبصورت مُسکان آئی۔ "علینہ کہہ رہی تھی کل آئیں گئے وہ۔۔۔۔۔" "اچھا،میں عصر کی نماز پڑھنے جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔"وہ کہتی ہوئی چلی گئیں تو پرخہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی مگر اندر جانے کے بجائے اس بنگلے کے پیچھے بنے سوئمنگ پول کی طرف آ گئی۔ "واؤ۔۔۔۔"وہ نیلے پانی کو دیکھتی آگے بڑھی۔ "میم یہ بہت گہرا ہے۔۔۔۔۔"وہاں کھڑا گاڑڈ دوڑ کر اسکے پاس آیا اس نے ناگواری سے دیکھا تو وہ بے بسی سے اسے دیکھتا واپس ہو لیا پرخہ خُوش دلی سے مُسکرا دی وہ دو دن سے ایسے ہی سب کو اپنے اشاروں پر چلاتی بہت خُوش ہو رہی تھی بچپن کے دن پھر سے جیسے لوٹ آئے تھے جب اُسکی ماما اور بابا اسکے آگے پیچھے پھڑتے تھے اور اسکی ہر خواہش اسکے مُنہ سے نکلتے ہی پوری کر دیتے تھے اور مریام شاہ وہ تو بچپن سے ہی اسکے بڑے لاڈ اُٹھاتا تھا وہ اس سے سات سال چھوٹی تھی مریام کی تو جان بستی تھی اس کے اندر اور اسی پیار محبت کو دیکھ کر ان کے گھر والوں نے انکا نکاح کر دیا تھا۔ "میم،پلیز اُٹھیں یہاں سے،سر بہت غُصے ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"علینہ ہانپتی ہوئی اسکی جانب آ رہی تھی پرخہ جس کا دل کُچھ دیر اپنے پاؤں اس نیلے پانی میں ڈال کر بیٹھنے کا تھا اُسکی ڈسٹربنس پر بد مزہ ہوئی۔ "میم یہ پُول سر نے اپنے لئے بنوایا تھا اس لئے یہ دس فیٹ گہرا ہے،آپ کا اس کے آس پاس رہنا خطرے سے خالی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "تو میں کونسا اس میں چھلانگ لگانے لگی ہوں ویسے بھی مُجھے تو تیرنا بھی نہیں آتا۔۔۔۔۔۔"وہ دوبارہ اُس پُول کی طرف دیکھنے لگی۔ "میم اس لئے تو منع کر رہے ہیں سر،یہاں بہت پھسلن ہے آپ چلیں اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"علینہ نرمی سے بولتی اسے کسی بھی طرح سے باز رکھنا چاہتی تھی۔ "میں پانچ منٹ بعد آ جاؤنگی،آپ جاؤ۔۔۔۔۔۔"وہ بضد ہوئی۔ "میم پلیز،سر غُصے ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"علینہ بے بسی سے بولی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ "اُنکو آپ مت بتانا کہ میں یہاں بیٹھی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔" "سر سے کُچھ چُھپا نہیں،اُنہوں نے ہی آپکو اس طرف جاتے دیکھ کر مُجھے ڈانتا ہے،وہ سب دیکھ رہے ہیں،اُس کے زریعے۔۔۔۔۔۔۔"علینہ کی اطلاح اور اشارے پر پرخہ نے چونک کر دیوار کے ساتھ لگے کیمرے کو دیکھا پھر کُچھ سوچ کر وہ علینہ کی جانب مُڑی۔ "آپ جاؤ،مُجھے یہاں بیٹھنا ہے تو بس۔۔۔۔۔۔" "پر میم۔۔۔۔۔۔۔" "میں نے کہاں نہ آپ جاؤ تو جاؤ۔۔۔۔۔۔"اب وہ سختی سے بولی علینہ بے بس ہو کر پیچھے پلٹی تبھی اُس کے نمبر پر مریام شاہ کالنگ جگمگانے لگا تو اُس نے کال یس کر کے کان سے لگایا پھر دُوسری طرف کُچھ کہنے پر وہ دوبارہ پرخہ کے قریب آئی جو اب ناگواری سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ "میم سر بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے موبائل اسکی طرف بڑھایا پرخہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ اُس کے ہاتھ سے فون لے کر اپنے کان سے لگایا پھر اُسکی طرف دیکھا جو دُور جا کر کھڑی ہو چُکی تھی۔ "پرخہ پلیز ضد مت کرو،تُمہیں پتہ ہے تُمہاری یہ ضد مجھے کتنا تنگ کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کی گھمبیر آواز اُسکی سماعتوں میں اُتری تو اتنے برسوں بعد اسکی آواز سُن کر اُسکی آنکھیں نم ہوئیں۔ "پرخہ،اُٹھو یہاں سے۔۔۔۔۔۔"اُس کے کہنے پر وہ خاموشی سے اُٹھی تو مریام شاہ کے ساتھ ساتھ علینہ نے بھی تشکر کا سانس لیا ورنہ جتنا اُس پر مریام شاہ گرجا تھا اُسے پکا یقین تھا کہ اُسکی خیر نہیں تھی۔ "تُم ہر کام اپنی مرضی سے کرو،ضد بھی کر سکتی ہو مگر کوئی بھی ایسا کام جس میں تُمہاری جان کو خطرہ ہو یا تُمہارے لئے کسی تکلیف کا باعث بنے تو اُس کے لئے مُجھے تم پر سختی بھی کرنی پڑے تو میں گریز نہیں کرونگا۔۔۔۔۔"اب کی بار اُسکا لہجہ کُچھ بے لچک سا محسوس ہوا۔وہ چُپ ہی رہی بلکہ وہ تو صرف اسے سُننا چاہتی تھی۔ "میں رات کو آ رہا ہوں،صرف تم سے ملنے،تیار رہنا۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہی اُس نے کال بند کر دی۔پرخہ نے ایک خوشگواریت اپنے پورے وجود میں اُترتی محسوس کی لبوں پر شوخ سی مُسکراہٹ آئی اور موبائل علینہ کو دے کر وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ "اگر تُمہاری میم اب مُجھے اس پُول کے آس پاس بھی نظر آئی تو پھر تُمہاری خیر نہیں۔۔۔۔۔"علینہ کو مریام شاہ کا میسج موصول ہوا۔

"__________________________________"

"تُم جانتے ہو بلوچ کہ تم کیا کہہ رہے ہو،تم یہ نہیں جانتے کہ جب حاکم کو اس بات کا پتہ لگے گا تو وہ کیا کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کے علم میں پرخہ کے غائب ہونے کی بات آئی تو اُسکا ری ایکشن بھی بلوچ جیسا ہی تھا کہ کُچھ پل تو وہ بھی ساکت ہوا تھا۔ "جانتا ہوں میں،میں نے اُس لڑکی کو حاکم کی امانت کے طور پر اپنے پاس رکھا تھا جو وقت آنے پر اُسے لوٹانی تھی پر میں ناکام ہو گیا اُسکی حفاظت کرنے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ پریشانی سے ٹہلنے لگا۔ "جو بھی ہوا بہت بُرا ہوا بلوچ،ایک تو وہ حاکم کی منظور نظر اور دوسرا مریام کی کمزوری اُسکی جان تھی ہمارے ہاتھ میں،اُسے ہرانے کا پتہ،پر یہ سب اتنی آسانی سے ہو کیسے گیا یہ تو وہی بات ہوئی کوئی تُمہارے مُنہ سے نوالہ چھین کر لے گیا اور تُمہیں پتہ ہی نہ چل سکا۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کو بھی اُس پر غُصہ آیا۔ "بس مات کھا گیا میں سمجھ ہی نہیں سکا،اُس نے گیم ہی ایسی پلان کی کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔۔۔" "اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں حاکم کو بتا دو سب،پھر سوچتے ہیں کیا کرنا ہے اور دوسری بات جتنی جلدی ہو سکے وہ لڑکی اس وقت کہاں ہے پتہ کرواؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور نے اپنے چہرے پر ماسک پہنا۔ "اب وقت آ گیا ہے مریام شاہ کو بھی اُس کے بل میں جا کر مارنے کا۔۔۔۔۔۔"راٹھور کے لہجے میں مریام شاہ کے لئے نفرت ہی نفرت تھی۔ "سب سے پہلے کل رات تک پچاس لڑکیاں بارڈر سے کسی بھی طریقے سے افغانستان بھیجنے کا منصوبہ بناؤ راٹھور کیونکہ یہ کام تم ہی کر سکتے ہو۔۔۔۔۔۔"بلوچ کے کہنے پر راٹھور رُک گیا۔ "کیا ابھی تک مال نہیں پہنچایا تم نے،یہ تو تین دن پہلے کا کام تھا۔۔۔۔۔۔۔۔" "ہاں پر اس واقع کی وجہ سے ڈیلے کر دیا میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔" "اُف بلوچ کہاں چلی گئی تُمہاری عقل،اتنی مُشکل سے اُس دن راستہ کلئیر کروایا تھا تم جانتے ہو کہ کتنی سختی ہے آجکل۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا ورنہ اُسکا دل کر رہا تھا بلوچ کو آج ایک آدھ تو لگا دے۔ "آج کا دن ہی منحوس ہے،ہر بُری خبر آج ہی ملنی تھی۔۔۔۔۔۔"وہ جھنجھلا کر ماسک مُنہ سے اُتار زمین پر پھینک گیا۔ "مُجھے تو مریام شاہ نے گُھما کر رکھ دیا ہے کُچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کی بے بس آواز پر راٹھور نے اُسے گھور کر دیکھا۔ "تم ایسا کرو اپنا یہ مشروب اُٹھاؤ اور اپنی کسی جان من کے ساتھ راتیں بسر کرو بس یہی ایک کام تم اب کر سکتے ہو باقی سب جائے بھاڑ میں،تُمہاری ناک کے نیچے سے وہ اپنی بیوی کو لے گیا اور تُمہیں کوئی ہوش نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"راٹھور نے اُسے اچھا خاصہ لتاڑ کر رکھ دیا بلوچ کو اب کی بار ناگوار گُزرا۔ "تُم مجھ پر نظر رکھنا چھوڑو اور اُس مریام شاہ پر توجہ دو جس کو آج تک تُم چُھو بھی نہیں پائے۔۔۔۔۔۔۔" "مُجھے اپنا کام کرنا آتا ہے بلوچ،تُمہاری طرح بے وقت کام کرنے کا عادی نہیں،اب یہ سوچو کہ آج رات وہ مال کیسے وہاں تک پہنچانا ہے ہر حال میں بلوچ ورنہ تب تو دو کڑور کا نُقصان ہوا تھا اس بار پانچ کڑور کا ہوگا۔۔۔۔۔۔"راٹھور دوبارہ سے ماسک پہننے لگا۔ "کیا اس کام میں جونیجو کو شامل کر سکتا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور نے اُسکی عقل پر تاسف سے دیکھا۔ "بہت کام کا آدمی ہے،میرا اسمگلنگ کا سارا کام وہ ہی دیکھتا ہے،میرے خیال میں یہ کام بھی وہ بڑی ہوشیاری سے کر سکتا ہے۔۔۔۔۔" "نہیں بلوچ،اس کام میں حاکم کی اجازت کے بیغیر کوئی اور بندہ شامل نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں ہم تینوں کی اصلیت اُس کے سامنے کھل جانے کا خطرہ ہے اور یہ رسک ہم کبھی نہیں لیں گئے،چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کہتا ہوا عقبی دروازے کی طرف بڑھا۔بلوچ بھی کُچھ سوچتا موبائل کی طرف متوجہ ہوا۔

"___________________________________"

"مریام شاہ اپنی میٹنگ ختم ہوتے ہی وہاں سے نکلا اور ڈرائیور کو گاڑی گھر کے راستے پر ڈالنے کا کہہ کر سر سیٹ کی پُشت سے ٹکا کر پرخہ کے بارے سوچنے لگا وہ اُڑ کر اُس کے پاس پہنچ جانا چاہتا تھا مگر بیچ میں کچھ ایسے کام نکل آئے تھے کہ وہ سب چھوڑ کر جا نہیں پایا تھا ورنہ جس دن سے وہ اسے شاہ پیلس چھوڑ کر گیا تھا دل تو کرتا تھا کہ اب ہر دُوری ختم کر کے بس اس کے پاس ہی رہے وہ اُسکی بچپن کی محبت تھی جس کے لئے وہ بارہ سال سے تڑپ رہا تھا اپنے ماں باپ کی موت کے بعد اگر کسی کے لئے رویا اور تڑپا تھا تو وہ وجود پرخہ کا تھا جس کو بلوچ سے آزاد کروانے کے لئے مریام شاہ نے ہر خطرہ مول لیا تھا اسکے دل میں بدلہ کی آگ بھڑک رہی تھی اپنے والدین کی موت کا بدلہ پر اولین چاہت اُسکی پرخہ کو آزاد کروانا تھا جو کروا کر وہ کچُھ پُرسکون ہو گیا تھا۔ "بلوچ اب تُمہیں میرے قہر سے کوئی نہیں بچا سکتا،پہلے تو میں بے بس تھا کیونکہ تُمہارے پاس وہ چیز تھی جو مُجھے میرے انتقام میری جان سے بھی بڑھ کر تھی جسکو پانے کے بعد اب مُجھے کسی قسم کا ڈر نہیں رہا اور اب تُمہیں مریام شاہ رعائیت نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دل ہی دل میں اُس سے مخاطب ہوا گاڑی رُکنے پر وہ آنکھیں کھول کر دیکھنے لگا وہ گھر پہنچ چُکے تھے گاڑی سے نکلتا وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا جہاں وہ دُشمن جان تھی اگر بلوچ پرخہ کو مریام شاہ کی کمزوری سمجھتا تھا تو ٹھیک ہی سمجھتا تھا مریام شاہ اگر کسی کے سامنے کمزور پڑ سکتا تھا تو وہ ذات پرخہ کی تھی جس کو کھونے سے ڈرتا تھا۔ دروازے پر رُک کر اُس نے گہری سانس لی اور آہستہ سے دروازہ کھولتا وہ کمرے میں داخل ہوا پہلی نظر اُسکی طرف اُٹھی جو ٹیرس پر کھڑی کسی سوچ میں غُرق تھی شاید اس لئے نہ تو اُسے مریام شاہ کے آنے کی آہٹ سُنائی دی اور نہ ہی اُس کی گہری نگاہوں کا ارتکاز اپنے وجود پر محسوس ہوا جو اسے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھ رہا تھا وہ اس وقت پیچ کلر کے سُوٹ میں ملبوس تھی سُنہری بالوں کو کیچر میں باندھ رکھا تھا جن کو دیکھ کر مریام شاہ کو من اُنکو کیچر کی گرفت سے آزاد کروانے کو مچل اُٹھا مریام شاہ کے قدم اُسکی طرف بڑھنے لگے۔ "پرخہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی پُکار پر وہ بے ساختہ پلٹی تھی اور اسے اپنے سامنے پا کر کُچھ پل کو جامد ہوئی بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ جس کے بازو فولڈ کیے ہوئے تھے سلکی بلیک بالوں کا پیارا سا ہیئر سٹائل بنائے ہلکی ہلکی داڑھی جو اس کے وجیہہ چہرے پر بہت خُوبصورت لگ رہی تھی اپنی بے تحاشا وجاہت کے ساتھ اسکے روبرو تھا جس کی آنکھیں جذبوں کی بھر پُور چمک لئے اُس پر ٹکیں تھیں پرخہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ "شاہ۔۔۔۔۔۔"اسکے گلابی لب پھڑپھڑائے آنکھوں میں نمی سی گُھلنے لگی۔مریام شاہ حیران نہیں ہوا تھا کہ اس نے کس طرح پہچان لیا آخر بارہ سال بعد ملے تھے بہت تبدیلی آئی تھی مگر وہ جانتا تھا کہ دونوں کی محبت نے اُنکو ہمیشہ سے باندھ کر رکھا تھا جس میں وہ نہ تو ایک دوسرے کو بُھول پائے تھے اور یہی محبت کی خُوشبو کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کو پہچان گئے تھے مریام نے نرمی سے بازو سے پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لگایا تھا اور پھر جیسے خُود میں بھینچ لیا۔ "اس پل کے لئے اگر مریام شاہ کو سو دفعہ مرنا بھی پڑے تو وہ اُف نہ کرے،بارہ سال سے اس لمحے کا انتظار کر رہا تھا جس میں تُم میرے قریب ہو اور تُمہیں کھونے کا ڈر آس پاس بھی نہ بھٹکے،بارہ سال سے جس خوف کے ساتھ جی رہا تھا یہ صرف میں جانتا ہوں یا میرا رب،ہر گھڑی تُمہارے کھو جانے کا خوف میرے ساتھ رہا ہے پرخہ،مریام شاہ کو اگر کسی چیز کا ڈر ہے تو وہ صرف تُمہارے دور جانے کا ہے جو مُجھے کبھی بھی کسی بھی میدان میں مات دے سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اُسے اپنے ساتھ لگائے بوجھل لہجے میں کہتا اُسکی آنکھیں نم کر گیا۔ "میں بھی تو صرف آپ سے ملنے کی آس میں ہی بارہ سال اُس حویلی میں گُزارے صرف اس یقین کے ساتھ کہ آپ ُمجھے وہاں سے نکال کر اپنے اُس وعدے کو نبھائے گئے جو آپ نے مُجھ سے کیا تھا اور آپ نے نبھا دیا شاہ،ورنہ بہت مُشکل تھا اب اور وہاں رہنا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی حسین آنکھوں سے آنسو پھسلے جن کو مریام شاہ نے بڑی محبت سے سمیٹا تھا۔ "اب ان آنکھوں میں مُجھے آنسو نہیں دیکھنے کیونکہ میں ہر اُس وجہ کو ختم کر دُونگا جو بھی تُمہارے لئے آنسوؤں کا باعث بنے گی یہ تُمہارے شاہ کا تُم سے دُوسرا وعدہ ہے جس کو نبھانے میں اپنی جان تک لگا دُونگا۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے مظبوط لہجے میں بولا۔ "ایک وعدہ تُمہیں بھی مُجھ سے کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے کہنے پر اُس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ "تُم کبھی مُجھ سے دُور نہیں جاؤ گی۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اسکے آگے ہاتھ پھیلایا جبکہ وہ اسکی بات پر مُسکراتی ہوئی اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی سر اثبات میں ہلا کر اس کے سینے پر سر رکھ گئی۔مریام اسکے یوں قریب آنے پر مُسکرایا۔ "مُجھے نہیں پتہ تھا کہ اتنی جلدی وعدے کی تکمیل کرنا شُروع کر دو گی۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کا انداز شرارتی تھا پرخہ نے شرمیلی سی مُسکان لبوں پر سجائی۔ "آپ اتنے دن آئے کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔"اتنے دنوں سے وہ اسکا انتظار کر رہی تھی اس لئے پوچھنے لگی۔ "کُچھ کام تھا،آنا چاہتا تھا پر آ نہیں پایا اُس کے لئے معذرت،بلکہ اب پھر سے جانے کے لئے اجازت دے دو۔۔۔۔۔۔۔" "کیوں،ابھی تو آئے ہیں آپ اور ابھی مُجھے آپکو صندل بُوا سے بھی ملوانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے جانے کا سُن کر مُنہ لٹکا گئی آخر اُسے اتنی باتیں کرنی تھیں بارہ سالوں سے جمع شُدہ اور اُسکا یہاں آنا وہ سب پوچھنا تھا۔ "صندل بُوا سے بعد میں مل لونگا ابھی صرف تُم سے ملنے آیا تھا ڈارلنگ پر ابھی جانا ضروری ہے یوں سمجھو کہ کُچھ لوگوں کی زندگیاں بچانی ہیں۔۔۔۔۔۔۔" "مطلب۔۔۔۔۔۔۔"وہ سمجھی نہ تو مریام شاہ نے اس کے ہاتھ پک کر لبوں سے لگایا۔ "مُجھے کوئٹہ جانا ہے وہاں فیکٹری لگا رہا ہوں نہ سو کام ہے،پلیز روکنا مت کیونکہ اگر تُم روکو گی تو مریام ہل بھی نہیں پائے گا سب کُچھ بھاڑ میں جھونک کر یہاں بیٹھ جاؤنگا پرخہ کی کوئی بات نہیں ٹال سکتا مریام شاہ یہ یاد رکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں کیا کُچھ نہ تھا مان، محبت ،چاہت سب کُچھ تھا وہ خُود پر نازاں ہونے لگی۔ "کب آئیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ "دو دن بعد،اوکے لو یو میری جان۔۔۔۔۔۔۔"جُھک کر اسکی روشن پیشانی چومتا وہ واپسی کو پلٹ گیا پرخہ اُسکی خُوشبو کو محسوس کرتی مُسکرا دی اور گلاس ونڈو سے دیکھا جو موبائل کان سے لگائے گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔

"_________________________________"

   0
0 Comments